اسلام آباد : پاکستان میں بدھ کو تھری جی اور فور جی کی نیلامی ہورہی ہے، یہ نیکسٹ جنریشن ٹیکنالوجی ہے کیا اور اس سے موبائیل صارفین کو کیا فوائد ملیں گے، اس کی تفصیلات جانیں اس رپورٹ میں۔
حکومت نے تھری جی موبائل ٹیکنالوجی لائسنس کی مد میں ایک ارب ڈالرز آمدن کا تخمینہ لگا رکھا ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وزیر مملکت انوشہ رحمان کا کہنا ہے تھری جی کے ساتھ اسپیکٹرم ٹیکنالوجی کی نیلامی سے صارفین کو فور جی ٹیکنالوجی کی خدمات بھی میسر ہوں گی۔
موبائل کمپنیاں ٹو جی نیٹ ورک پر وائس اور ڈیٹا سروسز فراہم کر رہی ہیں، ماہرین کے مطابق تھری جی ٹیکنالوجی سے موبائل کنیکشن اسمارٹ فون کے ذریعے کمپیوٹر بن جائے گا۔
ملک میں 900 اور 1800 میگا ہرٹز موبائل فری کیوئنسی موجود ہے، ماہرین کے مطابق تھری جی کیلئے 1800 سے 2100 میگا ہرٹز فری کیوئنسی فراہم کی جائے گی، جس سے موبائل کمپنیاں مزید سرمایہ کاری کریں گی۔ بارہ کروڑ موبائل صارفین میں سے ڈیڑھ کروڑ انٹرنیٹ کیلئے موبائل فون استعمال کرتے ہیں، پاکستان میں موبائل انٹرنیٹ استعمال کرنے والے صارفین کا ماہانہ دس لاکھ اضافہ ریکارڈ کیا جا رہا ہے۔
گزشتہ چند سالوں سے پاکستان میں تھری جی لائسنس کی نیلامی کا بہت چرچا ہے، اور اب تو حکومتی اعلان کے مطابق تھری جی کے ساتھ فور جی لائسنس بھی فروخت کیے جائیں گے۔ تھری جی سے مراد موبائل ٹیکنالوجی کی جنریشن ہے، جس میں ٹاور میں نصب سامان اور موبائل فون دونوں شامل ہیں۔ 1980 میں وائرلیس (موبائل ٹیکنالوجی کی پہلی نسل متعارف کروائی گئی، ون جی میں اینالاگ ٹیکنالوجی کا استعمال کیا گیا اور ہوا کے دوش پر پیغامات پہنچانے کی سہولت سب سے پہلے جاپان میں فراہم کی گئی۔
یہ وہ ٹیکنالوجی ہے جس سے ہر موبائل فون پر تیز رفتار انٹرنیٹ سروس فراہم ہو سکے گی۔ اس وقت جو ٹیکنالوجی استعمال کی جا رہی ہے وہ ’ایج‘ یعنی ایکسچینج ڈیٹا ریٹس فار جی ایس ایم ایولوشن‘ یا 2جی یعنی سیکنڈ جنریشن ٹیکنالوجی کہلاتی ہے، لیکن، تھری جی اور فور جی عنقریب اس کی جگہ لے لے گی جس سے موبائل ڈیٹا خواہ وہ تحریری شکل میں ہو یا تصویری و فلم کی شکل میں، اس کی ڈاوٴن لوڈنگ اسپیڈ کئی گنا بڑھ جائے گی۔ اور آپ موبائل پر اتنی ہی تیزی سے ڈیٹا ٹرانسفر یا شیئر کرسکیں گے جس طرح کمپیوٹر پر انٹرنیٹ کے ذریعے کرتے ہیں۔
وڈیو ڈاوٴن لوڈنگ میں ٹو جی ٹیکنالوجی گیارہ بارہ منٹ لیتی ہے تو تھری جی اور فور جی ٹیکنالوجی اسے بھی سیکنڈز میں ڈاوٴن لوڈ کرسکتی ہے۔ کسی بھی عام ویب سائٹ کو اوپن کرنے، ایس ایم ایس، پکچر میسیجنگ، ایم ایم ایس، ای میل اور براوٴزنگ کی تو یہ سب کچھ نئی ٹیکنالوجی کی بدولت ہوا کی طرح ہلکا اور آسان ہوجائے گا۔
ایک اندازے کے مطابق ایک بار یہ ٹیکنالوجی متعارف ہوگئی تو اس شعبے میں 9لاکھ نئی آسامیاں پیدا ہوں گی۔یہ نہایت کامیاب ٹیکنالوجی ہے۔ اب تک دنیا کے 101 ممالک یہ ٹیکنالوجی اپنا چکے ہیں۔ پاکستان کا نمبر 102واں ہوگا۔
حکومت نے تھری جی موبائل ٹیکنالوجی لائسنس کی مد میں ایک ارب ڈالرز آمدن کا تخمینہ لگا رکھا ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وزیر مملکت انوشہ رحمان کا کہنا ہے تھری جی کے ساتھ اسپیکٹرم ٹیکنالوجی کی نیلامی سے صارفین کو فور جی ٹیکنالوجی کی خدمات بھی میسر ہوں گی۔
موبائل کمپنیاں ٹو جی نیٹ ورک پر وائس اور ڈیٹا سروسز فراہم کر رہی ہیں، ماہرین کے مطابق تھری جی ٹیکنالوجی سے موبائل کنیکشن اسمارٹ فون کے ذریعے کمپیوٹر بن جائے گا۔
ملک میں 900 اور 1800 میگا ہرٹز موبائل فری کیوئنسی موجود ہے، ماہرین کے مطابق تھری جی کیلئے 1800 سے 2100 میگا ہرٹز فری کیوئنسی فراہم کی جائے گی، جس سے موبائل کمپنیاں مزید سرمایہ کاری کریں گی۔ بارہ کروڑ موبائل صارفین میں سے ڈیڑھ کروڑ انٹرنیٹ کیلئے موبائل فون استعمال کرتے ہیں، پاکستان میں موبائل انٹرنیٹ استعمال کرنے والے صارفین کا ماہانہ دس لاکھ اضافہ ریکارڈ کیا جا رہا ہے۔
گزشتہ چند سالوں سے پاکستان میں تھری جی لائسنس کی نیلامی کا بہت چرچا ہے، اور اب تو حکومتی اعلان کے مطابق تھری جی کے ساتھ فور جی لائسنس بھی فروخت کیے جائیں گے۔ تھری جی سے مراد موبائل ٹیکنالوجی کی جنریشن ہے، جس میں ٹاور میں نصب سامان اور موبائل فون دونوں شامل ہیں۔ 1980 میں وائرلیس (موبائل ٹیکنالوجی کی پہلی نسل متعارف کروائی گئی، ون جی میں اینالاگ ٹیکنالوجی کا استعمال کیا گیا اور ہوا کے دوش پر پیغامات پہنچانے کی سہولت سب سے پہلے جاپان میں فراہم کی گئی۔
یہ وہ ٹیکنالوجی ہے جس سے ہر موبائل فون پر تیز رفتار انٹرنیٹ سروس فراہم ہو سکے گی۔ اس وقت جو ٹیکنالوجی استعمال کی جا رہی ہے وہ ’ایج‘ یعنی ایکسچینج ڈیٹا ریٹس فار جی ایس ایم ایولوشن‘ یا 2جی یعنی سیکنڈ جنریشن ٹیکنالوجی کہلاتی ہے، لیکن، تھری جی اور فور جی عنقریب اس کی جگہ لے لے گی جس سے موبائل ڈیٹا خواہ وہ تحریری شکل میں ہو یا تصویری و فلم کی شکل میں، اس کی ڈاوٴن لوڈنگ اسپیڈ کئی گنا بڑھ جائے گی۔ اور آپ موبائل پر اتنی ہی تیزی سے ڈیٹا ٹرانسفر یا شیئر کرسکیں گے جس طرح کمپیوٹر پر انٹرنیٹ کے ذریعے کرتے ہیں۔
وڈیو ڈاوٴن لوڈنگ میں ٹو جی ٹیکنالوجی گیارہ بارہ منٹ لیتی ہے تو تھری جی اور فور جی ٹیکنالوجی اسے بھی سیکنڈز میں ڈاوٴن لوڈ کرسکتی ہے۔ کسی بھی عام ویب سائٹ کو اوپن کرنے، ایس ایم ایس، پکچر میسیجنگ، ایم ایم ایس، ای میل اور براوٴزنگ کی تو یہ سب کچھ نئی ٹیکنالوجی کی بدولت ہوا کی طرح ہلکا اور آسان ہوجائے گا۔
ایک اندازے کے مطابق ایک بار یہ ٹیکنالوجی متعارف ہوگئی تو اس شعبے میں 9لاکھ نئی آسامیاں پیدا ہوں گی۔یہ نہایت کامیاب ٹیکنالوجی ہے۔ اب تک دنیا کے 101 ممالک یہ ٹیکنالوجی اپنا چکے ہیں۔ پاکستان کا نمبر 102واں ہوگا۔
No comments:
Post a Comment